Thursday 17 November 2011

نفل پڑھنے سے سگریٹ کے جن نے مجھے چھوڑ دیا

2 نفل پڑھنے سے سگریٹ کے جن نے مجھے چھوڑ دیا


میں نے سگریٹ اس وقت سے پینا شروع کی جبکہ میں آٹھویں کلاس کا طالب علم تھا۔ صبح سکول جاتے وقت پیتا اور واپسی پربھی پیتا تھا اس وقت میر ی عمر 13 سال تھی، اور درمیانی عرصہ میں میں نے تین چار مرتبہ سگریٹ چھوڑنے کی مکمل کوشش کی مگر حقیقتاً ناکام ہی رہا اور ایک دفعہ تقریباً ایک سال تک سگریٹ نہ پی مگر کراچی جاتے ہوئے ملتان سٹیشن پر پتہ نہیں مجھے کیا ہوا کہ ایک سال بعد میرے اندر سگریٹ کی خواہش اس شدت سے ابھری کہ میں نے دوبارہ سگریٹ سلگایا اور ایسے معلوم ہوا جیسے میں نے چھوڑا ہی نہیں تھا میں کم از کم تین یا چار ڈبیاں سگریٹ پھونک جاتا تھا۔ سوائے مسجد اور نماز کے سگریٹ کے بغیر میں رہ ہی نہیں سکتا تھا۔ ہاں رمضان المبارک میں مجھے سگریٹ بالکل بھی پریشان نہیں کرتی تھی۔ مگر جب افطار کرلیتا تو طلب شروع ہوجاتی تھی جسے قابو کرنا مشکل ہوجاتا تھا۔ ایک اور بات کہ میں نے خالی پیٹ کبھی سگریٹ کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ سگریٹ ترک کرنے سے تقریباً 10 سال پہلے میرے ایک دوست کے والدصاحب نے جو کہ خود سگریٹ پیتے تھے مجھے بلایا بڑے ضعیف بزرگ تھے کہا کہ میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ سگریٹ چھوڑ دو مگر اتنا ضرور کہونگا کہ چلتے وقت سگریٹ نہ پیا کرو۔ چونکہ وہ بزرگ تھے میں ان کی بات کو رد نہ کرسکا جی ٹھیک ہے، آئندہ ایسا نہیں ہوگا تو انہوں نے بڑی عجیب بات بتائی کہ چلتے ہوئے سگریٹ پینے کا ایک سگریٹ کا نقصان دس سگریٹ کے برابر ہے۔ لہٰذا چلتے چلتے سگریٹ سے پرہیز کرو۔ اتفاق سے اسی دن ٹی وی پر ایک پروگرام دل کے بارے میں تھا کہ بیٹھے ہوئے، لیٹے ہوئے اور تیزقدم چلتے اور دوڑنے کے دوران دل کی حالت اس نے بتائی اور باقاعدہ کیمرے نے دل کو دھڑکتے ہوئے دکھایا۔ اب مجھے اس بڑے میاں کی بات کی سمجھ آگئی اور میں نے چل کر سگریٹ پینا چھوڑ دیا۔
ایک دن میں سگریٹ پیتے ہوئے جارہا تھا (اس بزرگ کی نصیحت سے پہلے) کہ امام مسجد میری طرف دیکھ کر انتہائی حقارت سے (میں نے ان کا چہرہ پڑھ لیا تھا) انہوں نے دل میں کہا ہوگا کہ بدبخت اپنا چہرہ ، اپنی ڈاڑھی اپنا وجود دیکھ اور تویہ خبیث عمل کیا کررہا ہے؟ مجھے واقعی وقتی طور پر بڑی شرمندگی محسوس ہوئی اور میں نے جیب میں پڑی سگریٹ کی ڈبی پھینک دی، ایک یا دو دن سگریٹ کو ہاتھ نہ لگایا اور پھر سگریٹ شروع ہوگیا اور پہلے سے زیادہ مسلسل پیتا رہا، فجر سے کچھ پہلے کھانسی کا دورہ پڑجاتا تھا جب تک اٹھ نہ بیٹھوں آرام نہیں آتا تھا۔ اسی طرح بڑی مشکل سے دن گزرتے رہے میں ایک یا دو سگریٹ منگواتا مگر تعداد وہی ایک دن میں 80 سگریٹ تک پہنچ جاتی تھی جو کہ باعث تشویش تھی۔
میں ہر روز نماز فجر کے بعد دکان کھول لیتا تھا۔ ایک دن ایک صاحب، شکل وصورت اچھی تھی کچھ خریداری کیلئے سودا خرید کر پیسے دئیے میں نے شاپر میں سامان ڈال دیا اور وہ صاحب میں نہیں جانتا کہ وہ کون تھے مگر خوش اخلاق اوربڑے پیار سے بات کرتے تھے۔ مجھے یہ صاحب بہت اچھے لگے اب وہ رکشہ کے انتظار میں تھے اور میں نے باہر آکر اس نیت سے کہ ان کیلئے رکشہ روکوں اور ساتھ ہی میں نے جیب سے سگریٹ کی ڈبی نکالی اور میں نے اسے بھی دعوت دی مگر انہوں نے انکار کیساتھ ہی مجھے ڈانٹنے کے انداز میں کہا کہ یہ تو آپ کیساتھ اچھا نہیں لگتا۔ چھوڑ دو، چھوڑ دو۔ میں نے کہا حضرت میں اسے نہیں چھوڑ سکتا تو انہوں نے بھی آخر حملہ کیا جو کہ اللہ نے ان کی زبان میں تاثیر رکھی تھی وہ کارگر ہوگئی۔ کہنے لگے اچھا ایک اور کام کرتے ہیں تم تہجد پڑھتے ہو میں نے کہا نہیں کبھی کبھار پڑھ لیتا ہوں تو انہوں نے کہا کہ جب بھی تہجد کیلئے اٹھ جائو تو صرف 2 نفل اس منحوس سگریٹ سے چھٹکارے کیلئے پڑھنا میں نے ہاں کردی۔ اب اتفاق سے اسی رات کو جب میں سویا اور جب اچانک میری آنکھ کھلی تو تہجد کا وقت تھا اور مجھے ان صاحب کی بات بھی یاد آگئی۔ میں اٹھا، وضو کرکے 2نفل سگریٹ سے چھٹکارے کیلئے پڑھے، آپ حیران ہوجائینگے کہ صبح جب میں اٹھا تو سگریٹ کی طلب بالکل نہ تھی، اسی طرح دن گزرتے گئے اور میں اتنا خوش کہ بیان سے باہر ہے اور پھر میں نے دو نفل روزانہ ان صاحب کیلئے پڑھنا شروع کردئیے اور اب تو میں صرف دو نفل ان صاحب سمیت سب مسلمانوں کیلئے پڑھتا ہوں۔ وہ دن آج تک کوئی تہجد قضا نہیں ہوئی اور نہ ہی سگریٹ کی طلب ہوئی۔

No comments:

Post a Comment